بورن مسلم ۔ born muslim
ہم ایک اسلامی معاشرے کا حصہ ہیں ۔ لیکن ہمارے معاشرے میں موجود مسلمان تین طرح کے ہیں۔
پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو اسلام سے اچھی خاصی آگاہی رکھتے ہیں اور اسلامی احکامات کے بارے ان کا رویہ قابل تعریف ہے ۔
دوسری قسم ان لوگوں کی جو ضروریات دین سے آگاہ ہیں اور زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جنھیں born muslimm کہا جاتا ہے یہ لوگ مسلم گھرانوں میں پیدا تو ہوتے ہیں لیکن انھیں اسلام کی الف کا بھی علم بھی نہیں ہوتا ۔
میرا تعلق ایک مذہبی ادارے سے ہے۔ جہاں عوام کیلئے جنازہ گاہ بھی ہے۔ چند روز قبل عصر کے وقت چند لوگ ایک جنازے کے ہمراہ حاضر ھؤے ۔ جن میں سے تو کچھ چارپائی کے کونے پکڑ کر میت کے پاس بیٹھ گئے ۔ چند احباب اپنی باتوں میں مگن ایک طرف ھو گئے ۔ رہے چند نا چاہتے ہوئے نماز باجماعت کا حصہ بن گئے ۔
نماز ختمِ ہوتے ساتھ ہی ایک شخص کھڑا ھوا اور مسجد کے آداب اور امام صاحب کو اہمیت نہ دیتے ھوئے جنازے کا اعلان کرنے لگا اور لوگوں کو ثواب دارین کی دعوت دینے لگا۔ خیر یہ جو بھی ہوا کچھ بھی نہیں ۔ ابھی میں مسجد سے باہر نہیں نکلا تھا کہ ایک جوان 20-22 سالہ نوجوان جلدی سے میری طرف بڑھا ۔ اس نے آتے ساتھ ہی بے ججک سلام کیا اور ایک سوال کیا ۔۔۔۔۔۔
جس سوال کا میں نے اسے بڑے اچھے انداز سے جواب تو دیا لیکن اس شخص کا سوال اور رویہ میرے لئے بہت ندامت کا باعث تھا۔
اس شخص کا سوال جماعت کے متعلق تھا۔۔۔۔۔۔۔ کہ مولوی صاحب نے ابھی کیا پڑھایا ہے۔۔۔۔۔ چار فرض پڑھائے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس کا اگلا سوال یہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اس وقت چار کچھ اور بھی پڑھتے ہیں وہ کیا ہے اور اس سے پہلے پڑھتے ہیں یا بعد میں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے عرض کی ۔۔۔۔۔ چار سنت غیر موکدہ ہیں جو جماعت سے پہلے پڑھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ نوجوان مزید کچھ سننے سے پہلے ہی چل دیا ۔
میری بیس سالہ زندگی میں یہ پہلا born muslimm شخص تھا جس سے میری گفت و شنید ھوئی تھی ۔ افسوس اس بات ہے کہ اس نوجوان کی اس لا علمی کا قصور وار کسے ٹھراؤں اس کے والدین کو ۔ تعلیمی اداروں کو یا معاشرے کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً ہر ایک کا کردار شامل ہے۔
پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو اسلام سے اچھی خاصی آگاہی رکھتے ہیں اور اسلامی احکامات کے بارے ان کا رویہ قابل تعریف ہے ۔
دوسری قسم ان لوگوں کی جو ضروریات دین سے آگاہ ہیں اور زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جنھیں born muslimm کہا جاتا ہے یہ لوگ مسلم گھرانوں میں پیدا تو ہوتے ہیں لیکن انھیں اسلام کی الف کا بھی علم بھی نہیں ہوتا ۔
میرا تعلق ایک مذہبی ادارے سے ہے۔ جہاں عوام کیلئے جنازہ گاہ بھی ہے۔ چند روز قبل عصر کے وقت چند لوگ ایک جنازے کے ہمراہ حاضر ھؤے ۔ جن میں سے تو کچھ چارپائی کے کونے پکڑ کر میت کے پاس بیٹھ گئے ۔ چند احباب اپنی باتوں میں مگن ایک طرف ھو گئے ۔ رہے چند نا چاہتے ہوئے نماز باجماعت کا حصہ بن گئے ۔
نماز ختمِ ہوتے ساتھ ہی ایک شخص کھڑا ھوا اور مسجد کے آداب اور امام صاحب کو اہمیت نہ دیتے ھوئے جنازے کا اعلان کرنے لگا اور لوگوں کو ثواب دارین کی دعوت دینے لگا۔ خیر یہ جو بھی ہوا کچھ بھی نہیں ۔ ابھی میں مسجد سے باہر نہیں نکلا تھا کہ ایک جوان 20-22 سالہ نوجوان جلدی سے میری طرف بڑھا ۔ اس نے آتے ساتھ ہی بے ججک سلام کیا اور ایک سوال کیا ۔۔۔۔۔۔
جس سوال کا میں نے اسے بڑے اچھے انداز سے جواب تو دیا لیکن اس شخص کا سوال اور رویہ میرے لئے بہت ندامت کا باعث تھا۔
اس شخص کا سوال جماعت کے متعلق تھا۔۔۔۔۔۔۔ کہ مولوی صاحب نے ابھی کیا پڑھایا ہے۔۔۔۔۔ چار فرض پڑھائے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس کا اگلا سوال یہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اس وقت چار کچھ اور بھی پڑھتے ہیں وہ کیا ہے اور اس سے پہلے پڑھتے ہیں یا بعد میں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے عرض کی ۔۔۔۔۔ چار سنت غیر موکدہ ہیں جو جماعت سے پہلے پڑھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ نوجوان مزید کچھ سننے سے پہلے ہی چل دیا ۔
میری بیس سالہ زندگی میں یہ پہلا born muslimm شخص تھا جس سے میری گفت و شنید ھوئی تھی ۔ افسوس اس بات ہے کہ اس نوجوان کی اس لا علمی کا قصور وار کسے ٹھراؤں اس کے والدین کو ۔ تعلیمی اداروں کو یا معاشرے کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً ہر ایک کا کردار شامل ہے۔
No comments:
Post a Comment